بت پرستی کی ابتداء


*بت پرستی کی ابتداء*


         مفکر اسلام امام احمدرضا خاں بت پرستی کے آغاز اور اس کے اثرات سے متعلق فرماتے ہیں کہ: دنیا میں بت پرستی کی ابتداکیوں ہوئی کہ صالحین کی محبت میں ان کی تصاویر گھروں اور مساجد میں رکھی گئیں ان سے لذت عبادت کی تائید سمجھی، پھر آہستہ آہستہ وہی معبود ہوگئے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ،ترجمہ:اور کافروں نے کہا کہ ہر گز اپنے خداؤں کو نہ چھوڑو اور ود، سواع، یغوث، نسر کو کبھی نہ چھوڑو۔

اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں کہ ابوجعفر نے فرمایا ’’ود‘‘ ایک مسلمان شخص تھا جو اپنی قوم میں ایک پسندیدہ اور محبوب بھی تھا۔جب وہ مرگیا تو سر زمین بابل میں لوگ اس کی قبر کے آس پاس جمع ہوئے اور اس کی جدائی پر بے قرار ہوئے جب شیطان اس کی جدائی میں لوگوں کو بے تاب پایا تو وہ انسانی صورت میں ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں اس شخص کے مرنے پر تمہاری بے قراری دیکھ رہا ہوں۔ کیا مناسب سمجھتے ہو کہ میں بالکل اسی جیسی تمہارے لیے ایک ایک فوٹو تیار کردوں، لوگ اس کی طرف متوجہ ہوگئے اور اس کا تیار کردہ فوٹو دیکھ کر اسے یاد کرتے رہے۔ راوی نے کہا کہ ان کی اولاد نے یہ دور پالیا پھر وہ دیکھتے رہے جو ان کے بڑے کرتے رہے۔ پھر نسل آگے بڑھی اور آنے والی نسلوں نے اسے خدا بنا لیا اور اللہ کو چھوڑ کر اس کی عبادت میں مصروف ہوگئے۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد۴۲، ص۴۷۵)

الشیخ احمدرضا خاں، بخاری میں سے حدیث نقل کرتے ہیں جب ان لوگوں میں کوئی نیک اور صالح آدمی مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد تعمیر کرتے پھر ان کی تصاویر کو اس میں سجاتے وہی اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، ص۵۷۵)

رسول اللہ نے اپنی وقاتِ اقدس کے مرض میں فرمایاۃ یہود ونصاریٰ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوۃ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو محلِ سجدہ بنالیا اور فرمایا ایسا کرنے والے اللہ عزوجل کے نزدیک روزِ قیامت تک بدترین مخلوق ہے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: یہ نہ ہوتا تو قبر اطہر کھول دی جاتی مگر اندیشہ ہوا کہ کہیں سجدہ نہ ہونے لگے لہٰذا احاطہ میں مخفی رکھا۔ (فتاویٰ رضویہ، ص۳۵۴)

شیخ الاسلام امام احمدرضا خاں حنفی نے قرآن وسنت کی روشنی میں شخصیت پرستی، تصویر پرستی، قبر پرستی اور بت پرستی کا تدریجی جائزہ پیش کیا کہ سابقہ امت نے اپنے صالحین کے ساتھ کس قدر غلو کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں معبود کے درجے پر فائز کردیا۔ دوسری طرف اس حقیقت کی جانب رہنمائی فرمائی کہ اس دور کے علما عقید توحید کے فروغ میں سستی اور کاہلی کے مرتکب ہوئے جس کی وجہ سے ان میں عقید توحید کا علم اٹھ گیا۔ علما کی اس کوتاہی کے سبب سابقہ امتوں میں قبرپرستی اور بت پرستی کی راہ ہموار ہوتی چلی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ مفکرِ اسلام نے امت مسلمہ میں عقید توحید کو راسخ کرنے کے لیے بت پرستی اور قبر پرستی کی تمام راہیں مسدود کرنے کے لیے فتاویٰ رضویہ میں کئی احادیث نقل فرمائی ہیں مثلاً:

رسول اللہ ؐ فرماتے ہیں:

(۱)۔ قبروں کی طرف نماز نہ پڑھ نہ ان پر بیٹھو۔ (۲)۔ الٰہی میرے مزارِ کریم کو بت نہ ہونے دینا، اللہ تعالیٰ کی لعنت ان پر جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبریں مسجد کرلیں۔ (۳)۔ بدترین لوگوں میں وہ ہیں جو قبروں کو محل سجود قرار دیں۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد۲۲، ص۴۵۴، ۵۵۴) ان احادیث کی روشنی میں امتِ مسلمہ کو قبر پرستی سے کئی فتاویٰ بھی جاری فرمائے مثلاً قبر کے سامنے نماز پڑھنا گناہِ کبیرہ ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد۴۱، ص۸۷۴)

مزار کو سجدہ درکنار کسی قبر کے سامنے اللہ عزوجل کو سجدہ جائز نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ،جلد۲۲، ص۶۷۴)

خود قبر کو سجدہ کرنا یا اس سجدے میں (قبر کو) قبل توجہ بنانا کس درجہ سخت ممنوع وحرام ہوگا۔ (فتاویٰ رضویہ،جلد۲۲، ص۸۷۴)

اگر طواف بنیت تعظیمِ قبر ہے تو بلاشبہ حرام ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد۴۱، ص۹۹۳)

اگر طواف بنیتِ عبادتِ غیر ہے تو مطلقاً کفر و شرک۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد۲۲، ص۲۹۳)

زمین بوسی بالائے طاق رکوع کے قریب تک جھکنا منع ہے مزارات کو سجدہ یا ان کے سامنے زمین چومنا اور حدِ رکوع تک جھکنا منع ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد۴۱، ص۴۷۴) بوس قبر میں بہت اختلاف ہے بکثرت اکابر جواز و منع دونوں طرف ہیں اور عوام کے لیے زیادہ احتیاط منع میں ہے۔ خصوصاً مزارات طیبہ اولیائے کرام کے اتنا قریب جانا خلافِ ادب ہے کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے پر کھڑا ہو۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد۲۲، ص۹۱۴)کسی ولی اللہ کا مزار شریف فرضی بنانا اور اس کے ساتھ اصل سا معاملہ کرنا ناجائز و بدعت ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد۹، ص۵۲۴)
آپ سے سوال کیا گیا کہ قبر اونچی کرکے بنانا کیسا ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا خلافِ سنت ہے۔ میرے والد ماجد میری والدہ ماجدہ اور میرے بھائی کی قبریں دیکھئے ایک بالشت سے اونچی نہ ہونگی۔ (الملفوظ، حصہ سوم، ص۸۲۴) مفکرِ اسلام احمدرضا خان قادری نے قبروں پر سجدہ، رکوع، طواف کرنے سے منع فرمایا۔ یہاں تک ہی نہیں بلکہ آپ فرماتے ہیں کہ اخلاصِ عبادت یہ ہے کہ عبادتِ غیر کی مشابہت سے بچیں۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد۲۲، ص۵۰۵)

Post a Comment

0 Comments